Monday 12 March 2012

زندگی میں غم کیوں ہیں؟


   ہم اپنے اردگرد پھیلی ہوئی کائنات پر جس قدر غور کریں اسی نتیجے پر پہنچیں گےکہ اس کا خالق کتنا قدرت والا' نہایت مہربان اور حکیم ہے۔ جس نے اس قدر وسیع اور خوبصورت کا ئنا ت بنا ئی' تمام مخلوقات کی ضروریات کو پورا کرنے کا بہترین بندوبست کیا' اس کی بنا ئی ہوئی چھوٹی سے چھوٹی اور بڑی سے بڑی تخلیق میں جتنا غور کیا جائے اس کی حکمتیں حیران کئے دیتی ہیں۔ کیوں اس کی بنائی ہوئی کائنات میں انسان اتنا غمگین ہے؟ وہ رب جس نے ہم پراپنی نعمتوں کی بارش کر رکھی ہے وہ ہم پر ظلم کیسے کرسکتا ہے۔ ہم کیوں نہیں سمجھتے کہ اگر غم اس کی طرف سے ہے تو اس میں ضرور کوئی نہ کوئی حکمت ہوگی۔
   بعض اوقات اللہ تعالٰی ہمارے دلوں کی کمزوریوں کو دور کرنے کے لئے ہمیں مشکلات میں ڈالتا ہے اور ہماری ثابت قدمی پران مشکلات کو ہمارے گناہوں کا کفارہ بنا دیتا ہے۔ ان آزمائشوں سے ہمیں اپنی خامیوں کا پتہ چلتا ہے۔ 
:ایک حدیث ہےکہ
      آزمائش جتنی سخت ہوگی اتنا ہی بڑا انعام ملےگا اوراللہ تعالٰی جب کسی گروہ سے محبت کرتا ہے تو ان کوآزمائشوں میں     ڈالتا ہے۔ پس جو لوگ اللہ کے فیصلے پر راضی رہیں اور صبر کریں تو اللہ ان سے خوش ہوتا ہے اور جو لوگ آزمائش میں اللہ سے ناراض ہوں تواللہ بھی ان سے ناراض ہوجاتا ہے"۔
                    اللہ تعالٰی کسی پر اس کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا"۔"
      یہ دنیا کھونے اور پانے' کامیابی اور ناکامی' خوشی وغم کی جگہ نہیں بلکہ صرف اورصرف امتحان کی جگہ ہے۔ یہاں غم اس لئےبھی ہیں کہ انسان اللہ کی جنت کو چھوڑ کردنیا کو اپنا مستقل گھر نہ سمجھ بیٹھے۔ لوگ دنیا میں ہی اپنی جنت بنانا چاہتے ہیں اسی لئے خواہشات کا پورا نہ ہونا غم کا باعث بنتا ہے۔ غم کو اتنا حاوی نہیں کرنا چاہیے کہ پھر انسان کچھ کرنے کے قابل نہ رہے کیونکہ اگر ہم نےاس مختصر سی زندگی کوآخرت کے اجر سمیٹنے کے بجائے رونے دھونے ' شکوے شکایتیں کرنےاوراپنی مظلومی ثابت کرنے میں گزاردیا تو یہ نقصان کاسودا ہوگا۔ ہم اللہ تعالٰی کی ان نعمتوں کو نہیں دیکھتےجو وہ ہم پر برساتا رہتا ہے بلکہ جب کوئی مصیبت ہم پر آتی ہے توفوراً شکوے شروع کردیتے ہیں۔ مشکل میں ہمیں ان نعمتوں کی طرف توجہ کرنی چاہیے جنہوں نے پریشانی میں بھی ہمیں ڈھانپ رکھا ہوتا ہے۔  
اللہ تعالٰی کبھی غم اور محرومیاں دےکر اور کبھی خوشی اور کامیابی عطا کرکےآزماتا ہے۔ ہمیں غم کی حالت میں اللہ تعالٰی کی رحمت سے مایوس اور خوشی میں آپے سےباہرنہیں ہونا چاہیے۔  
اپنے اندر صبر پیدا کرنا چاہیےاور یہ بات ہمیشہ یاد رکھنی چاہیے کہ جب زندگی خود ہی مختصر ہے تو اس کےاندر آنے والے یہ پریشانی کےلمحات تو اس سے بھی زیادہ مختصر ہیں۔  
:آپ صلی للہ علیہ وسلم نے فرمایا
   صبر تو وہی ہے جو صدمے کی ابتداء میں ہو"۔"
صبر کا مطلب یہ نہیں کہ انسان مصیبت سے نکلنے کی کوشش نہ کرے بلکہ ساتھ میں اللہ سے عافیت مانگتی رہنی چاہیے اگر اللہ کی طرف سے کوئی مصیبت آجائےتو اس کے مقابلےمیں صبر سے کام لینا چاہےاور اللہ سے صبر کی توفیق بھی طلب کرنی چاہیے۔ 
اگر کبھی ہمیں ہمارے مقصد میں کوشش کرنے کے باوجود کامیابی حاصل نہ ہوسکےتوزیادہ پر یشان نہیں ہونا چاہئےبلکہ یہ یقین ہو کہ میری تقدیر میں یوں ہی لکھا تھا اور میرا رب مجھے آزمانا چاہتا ہےتاکہ دنیاوآخرت میں انعاات سے نوازے اور گناہ دھل جائیں اوراب اپنی پوری کوشش اپنے رب کی آزمائش میں پورا ترنے کی کرنی چاہیے۔ لہذا صبر سے کام لینا چاہیے ا ور  غلط    طریقوں کے استعال سے بچنا جاہئے۔ جس کا اجراللہ ضرور عطا فرمائےگا۔ 
:ارشاد باری تعالٰی ہے
    اور تمہیں کوئی مصیبت ایسی نہیں پہنچتی نہ زمین کی نہ تمہاری جانوں کی مگر وہ وجود میں آنے سے پہلے ہی ایک کتاب میں لکھی ہوئی ہے۔ اور یہ اللہ کے لیےنہایت آسان بات ہے۔ یہ بات تمہیں اس لیے بتائی جا رہی ہے کہ جو چیزجاتی رہے اس پر غم نہ کرو اور نہ اس چیز پر اتراوُجو اس نے تمہیں بخشی ہے"۔                                  

6 comments:

  1. nice:) gham ki wajha duniya se bey inteha lagao ha, hm bhol chukey hain duniya mein aaney ka maqsad

    ReplyDelete
  2. nyc:)hum log apni akhrat ko bhula kar dunya me itna kho chukay hain k js ki wajah se hm logo ki parishanio r ghum me izafa ho gya hy..

    ReplyDelete
  3. true n also agreed with Tahira n anum...... :)

    ReplyDelete