Monday, 6 February 2012

استادِ محترم۔۔۔؟؟؟


                                                                  کتاب نکالیے! صفحہ نمبر ۵۲، مشق ۶!!، استاد صاحب بڑی سنجیدگی سے کوئی سوال حل کروا نے میں مصروف ہیں ، طالب علم اتنی ہی تندہی سے موبائل فونز پہ ٹک ٹک کرنے اور دیگر سرگرمیوں میں،یہ صرف کسی ایک کلاس روم کا حال نہیں ہے، آج کل زیادہ ترتعلیمی اداروں میں طلبہ و طالبات دورانِ لیکچر اسی قسم کی حر کات کرتے ہوئے پائے جاتے ہیں۔
 یہ حقیقت ہے کہ طالب علم خواہ کسی بھی عمر یا درجے کا ہو شعوری ےا غیر شعوری طور پر اپنے استاد کی شخصیت سے کسی نہ کسی طرح متاثر ضرور ہوتا ہے۔اب سے کچھ عرصہ پہلے تک استاد ایک انتہائی قابلِ احترام ہستی اور تدرےس انتہائی باوقار پیشہ تصور کےا جا تا تھا۔لےکن افسوس کی بات یہ ہے کہ موجودہ دور میں جس طرح دیگر بہت سی اخلاقی قدریں زوال کا شکار ہورہی ہیں وہیں تکریمِ اساتذہ میں بھی واضح فرق نظر آتا ہے۔ایک زمانہ تھا کہ جب استاد سے اونچی آواز میں تو کیا ،نظر اٹھا کر بات کرنا بھی بے ادبی کے زمرے میں آتا تھا۔ آج کل اونچی آواز تو کجا، اساتذہ کے ساتھ مارپیٹ بھی ایک معمولی بات سمجھی جانے لگی ہے۔ یہ رحجان خاص طور پر جامعات اور کالجوں میں زےادہ نظر آتا ہے ، لگتا ہے کہ اساتذہ سے بدتمیزی ایک قابلِ فخر عمل بنتی جارہی ہے۔

 آخر اساتذہ نے اپنا مقام کیوں کھو دیا؟ آج کے طلبہ و طالبات اپنے استاد کو اپنا آئیڈیل کیوں نہیں بناتے؟ اساتذہ کے احترام میں کمی کا ذمہ دار جہاں بے باک میڈیا ،والدین اور نام نہاد طلباءتنظیمں ہیں، جو اپنے کارکنان کو لامحدود اختیارات دے کر چھوٹے بڑے کی تمیز اور حسنِ سلوک کی جگہ” بھرم بازی“ کا درس دیتی ہیں، وہیں اس میں کچھ کردار خود اساتذہ کا اپنا بھی ہے۔ جب انہوں نے خود اپنے پیشے کے تقدس کا خیال کرنا چھوڑ دیا تو معاشرے سے بھی یہ احترام بتدریج ختم ہونے لگا ۔آج کے طالبعلم نے اگر بے ادبی کی روش اپنائی ہے تو شیخ مکتب نے بھی روحِ انسانی کی صورت گری ترک کر کے اپنے آپ کو صرف ٹےکسٹ بک تک محدود کرلیا ہے۔ روحانی والدےن کی حیثیت سے تربیت کرنے کا تصور بھی تیزی سے مفقود ہوتا جارہا ہے۔مادیت پرستی کی وبا کی زد میں یہ مقدس پیشہ بھی ہے۔ بدعنوانی کا گھن معلم کے اخلاق و کردار کو بھی چاٹنا شروع کرچکا ہے۔ سرکاری تعلیمی ادارے اس بد عنوانی کا منہ بولتا ثبوت ہیں جہاں اساتذہ سرکار سے مفت کی تنخواہ بھی وصول کرتے ہیں اور ذاتی ٹیوشن وکوچنگ سینٹرز کے ذریعے بھی لاکھوں کی کمائی کرتے ہےں۔ چند پیسوں کے عوض امتحانی کاپیوں کی چیکنگ میں گڑبڑ،کاپیوں کی خرید وفروخت،امتحانی مراکز میں روپوں کے بدلے نقل کی تمام تر سہولتوں کی فراہمی سے لے کر جامعات اور کالجوں میں مرد اساتذہ کی جانب سے طالبات کو ہراساں کرنے تک کی شکایات بہت عام ہوتی جا رہی ہیں۔

 جب یہ محترم ہستی خود ہی حرص وہوس کے اس کیچڑ سے کھیلنے لگے گی تو مستقبل کے معماروں کو اس گندے کھیل سے کون روکے گا؟؟ جب استاد کی جانب سے معصوم بچوں پر کیے جانے والے وحشیانہ تشدد کی خبرےں اخبارات کی زینت بنیں گی تو معاشرے میں پروان چڑھتے غیرانسانی رویوںکی روک تھام کون کرے گا؟؟جب تعلیمی اداروں مےں خود اساتذہ اپنی سرپرستی مےں بسنت اور ویلنٹائن ڈے جےسے تہوار منوائیں گے،فرسٹ ائیر فولنگ کے لیے مواقع فراہم کریں گے ،تو ہم کو اپنے مذہب، اپنی اقدار و روایات پر فخر کرنا کون سیکھائے گا؟؟

 جب سیرت واخلاق کے تانے بانے کمزور پڑنے لگیں تو لباس خواہ کتنا ہی اعلیٰ درجے کا کیوں نہ ہو بوسیدہ ہو جاتا ہے۔ یہی کچھ معاملہ ہمارے اساتذہ کرام کے ساتھ بھی نظر آتا ہے، اعلٰی ترین ڈگریوں کے حامل یہ افراد ،آخر کیوں معاشرے کو مفید افراد کی فراہمی کے بجائے پڑھے لکھے جہلا عطا کر رہے ہیں؟ شاید اس کی ایک اہم ترےن وجہ یہ ہے کہ کے آج بیشتر اساتذہ خود بھی اس پختہ نظریاتی اساس سے محروم ہیں جو بحیثیت استا د ان کا سرمایہ ہونی چاہیے۔سیکولرازم کے شکا ر ، مغربی معاشرے سے مرعوب اساتذہ نہ خود درست راہ کا تعین کر سکتے ہیں اور نہ ہی اپنے شاگردوں کی صحیح خطوط پر رہنمائی کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔استاد کسی بھی معاشرے کے لیے انتہائی کارآمد فرد ہوتے ہیں، ان کے پاس نوجوانوں کی ذہن سازی اور تعمیر ِسیرت کے وسیع مواقع ہوتے ہیں،ان موقعوں کا درست استعمال ملک و ملت کے مستقبل کو بنا بھی سکتا ہے اور غلط استعمال تباہی کے دہانے پر بھی لا کر کھڑا کر سکتا ہے۔
  ضرورت اس امر کی ہے کے اساتذہ اپنے اہم کردار کو سمجھیں ، تدریس کے پیشہ کو انبیاءکی میرا ث سمجھتے ہوئے اس کی حرمت کا خیال رکھیں، معلمِ انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت و کردار کو مد ِ نظر رکھتے ہوئے اپنی شخصیت کو بھی اسی سانچے میں ڈھالنے کی ہر ممکن کوشش کریں اور اپنے شاگردوں کی تربیت بھی ان ہی خطوط پر کریں۔ جینز جوگرز کلچر کے فروغ میں اپنا حصہ ڈالنے کے بجائے ، نئی نسل کو اپنی اقدار و روایات سے محبت اور ان پر فخر کرنے کی تعلیم دیں۔ اگر اساتذہ درست کردار ادا کریں تو تیزی سے اخلاقی انحطاط کا شکار ہوتے ہوئے اس معاشرے کو بچایا جا سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو معاشرے کی تعمیر کے لیے اپنا کردار مثبت طور پر ادا کرنے کی توفیق عطا 
            فرمائے 

18 comments:

  1. Speedy work,Good.Be careful with the "Imla" next time.

    ReplyDelete
    Replies
    1. bohtttttt jazakAllah 4 ur appreciation.. InshaAllah next time yeh unicode wala masla bhi solve hoo jaye ga..:)

      Delete
  2. ammara irshad awan11:02 pm, February 06, 2012

    v,good and v.true..keep it up

    ReplyDelete
  3. very good !keep it up
    n Best of Luck 4 next one

    ReplyDelete
  4. waqai maza agaya perh k good one yusra :)

    ReplyDelete
  5. page pe chaar chand lug gaye apki post k baad.... ;)

    ReplyDelete
  6. shabash:)...achi tehreer

    ReplyDelete
  7. السلام علیکم
    بہت عمدہ ، موضوع کا چناﺅ اچھا ہے ، استاد اور طالب تعلیمی ادارے کے دو ایسے ستون ہیں جو ایک دوسرے سے منسلک ہیں لیکن بدقسمتی سے دونوں ستون ہی منہدم ہونے کو ہیں اگر منہدم نہ بھی ہوں تو ان کی حالت اس وقت ایسی ہو چکی ہے کہ اس پر پائیدار عمارت کا تصور محال ہے ، بہرحال آپ کا طرز تحریر بہت عمدہ ہے تحریر کہیں بھی بے ربط محسوس نہیں ہوتی اور خاص بات یہ کہ الفاظ کا چناﺅ بہت دیکھ بھال کر کرتی ہیں ورنہ آج کل تو بڑے بڑے قلم کار کی تحریرں بھی انگریزی زدہ ہوتی ہیں،آپ کی گزشتہ دنوں جنگ اور جسارت میں شائع شدہ تحریر کسی بڑے قلم کار سے کم نہ تھیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ اللہ کارے زور قلم اور زیادہ

    ReplyDelete
  8. waoooo veryyy nice bachay, han thori si mistakes hain urdu imla ki but overall zaberdast hai.
    GOOD,KEEP UP THE GOOD WORK.
    MAM.BATOOL EZAM.

    ReplyDelete
  9. bohttttttttt jazakAllah all of u.:)

    ReplyDelete
  10. A great piece of writing on a very good topic. Writing style is awesome and looking like a professional :-) Keep it Upp!!!!

    ReplyDelete