Friday 17 February 2012

ذوالقرنین اوریاجوج ماجوج پرایک تحقیقی جائزہ



         قرآن کی سورت"سورہ کہف" کی ہر جمعہ کو تلاوت کرنے کی تاکید کی گئی ہے اور اس کی فضیلت بھی بہت ہے۔ اس سورت میں اللہ تعالٰی نے حضرت ذوالقرنین اوریاجوج ماجوج کا ذکرکیا ہے۔   میں جب بھی یہ سورت ترجمہ کے ساتھ پڑھتی تو مجھ میں یہ تجسس پیدا ہوتا کہ ذوالقرنین دراصل تھے کون؟ یاجوج ماجوج کا کیا قصہ ہے؟ اورجودیوار انہوں نےتعمیر کی تھی وہ دنیا میں کہاں موجود ہے؟ قرآن میں چونکہ اس کا بہت مختصر ذکر ہے اس لئےمجھ میں اس کے بارے میں مزید جاننےکی دلچسپی پیدا ہوئی۔
        گزشتہ دنوں جنگ اخبارمیں ڈاکٹرعبدالقدیرخان کا آرٹیکل شایع ہوا۔ جس میں انہوں نےحضرت  ذوالقرنین کے بارے میں ایک کتاب کے حوالے سے کافی تحقیق شدہ معلومات بیان کیں جن کو پڑھنے سےمیرے تجسس میں کافی حد تک کمی آئی اور میری معلومات میں اضافہ ہوا۔ یہ آرٹیکل ان لوگوں کے لئے بڑی توجہ کا حامل ہےجو تاریخ سے، تاریخی واقعات سے خاص طور پر قرآن میں بیان کردہ قصوں سے گہری دلچسپی رکھتے ہیں۔ میں اس آرٹیکل کو یہاں مختصراً بیان کررہی ہوں۔ 
         حضرت ذوالقرنین کا ذکرسورہ کہف،پارہ15 اورآیات83سے100تک میں اللہ تعالٰی نے بیان کیا ہے۔ ان آیات میں یاجوج ماجوج کا ذکرہے۔ مرحوم سیدابوالاعلیٰ مودودی نے تفہیم القرآن میں لکھاہے کہ یاجوج ماجوج وحشی،جنگلی انسان تھے جوایشیا،میں شمالی مشرقی علاقہ'چین' میں رہائش پذیرتھے  اور وہاں سےنکل کرآباد اور ترقی یافتہ علاقوں میں تباہ کن حملےکرتےتھےاورمدوجزرکی لہروں کی طرح ایشیاء اور یورپ میں پھیل گئےتھے۔ بعض تاریخ دانوں نےان کےرہائشی علاقےکوماسکواورتوبل سیک کےآس پاس بتلایا ہےاورایک یہودی تاریخ داں جوزےفس نےلکھا ہےکہ یہ لوگ بحراسود کےشمال ومشرق میں اورکوہ قاف کےشمال میں رہائش پذیرتھے۔ اب میں یہاں سعودی اسکالرجناب حمدی بن حمزہ السریری الجوہانی کی تحقیق اوراس پران کی تحریرکردہ کتاب میں دی گئی معلومات بیان کرناچاہتی ہوں۔   
        تحقیق کےنتایْج مختصراً یہ ہیں۔"تاریخ ہمیں بتاتی ہےکہ تقریباّ 3400 سال پیشتر[1392قبل مسیح] ایک بچہ کی پیدایْش دریاےْنیل کے کنارےعالیشان محل میں ہوئی تھی اس محل کا نام الشروق محل تھا اور یہ دریاےْنیل کےمشرقی کنارے پر واقع تھا۔ اس بچہ کاوالد اس وقت کےنہایت مشہوراورطاقتورترین فرعون "اَمون ہوتیب" تھااورجب یہ حضرت موسیٰ اوران کےساتھیوں یعنی 'بنی اسرائیل' کاتعاقب کررہاتھا تواللہ تعالٰی نےاس کواوراس کےساتھیوں کوسمندرمیں غرق کردیاتھا۔ بچہ کانام "امون ہوتیب چہارم" رکھاگیا اورجب یہ 32 سال کاتھا 1360میں اللہ تعالٰی نےاس بادشاہ کونبوت کادرجہ عطا فرما دیا تھا مگراس نےبہت خاموشی سےاور پوشیدگی سےاپنا کام جاری رکھا تاکہ سلطنت کی بنیادیں مضبوط ہوجائیں۔ جوں ہی وہ اس میں کامیاب ہوگیا اس نےوحدانیت پرعمل شروع کردیا اور اس کی تبلیغ کی۔ اس نےاپنےپرانےمحل کوچھوڑا اورمصرکےوسط میں ایک نیاشہرتعمیرکیا اوراس کا نام "اکھےتاتون" رکھااوریہاں بت پرستی ممنوع قراردیدی۔ تاریخ بتاتی ہےکہ اس کی ماں ملکہ " تی" وحدانیت پرایمان رکھتی تھی۔ قرآنی آیات کے مطابق ذوالقرنین ایک صاحب ایمان اوراچھی شخصیت کےمالک تھے۔ یہاں انہوں نےبارہ سال قیام کیا۔ پھراچانک یہ شہر، آبادی سب کچھ صفحہ ہستی سےغائب ہوگئےاوران کا نام ونشان بھی نہیں ملا۔ یہ مصر کی تاریخ کابہت بڑارازہے۔ اس طرح 1342 قبل مسیح سےمصرکی تاریخ کاایک نیادورشروع ہوا۔
         تقریباً 615ء میں اللہ تعالٰی نےقرآن مجید میں ذوالقرنین کاقصہ بیان کیا۔ذوالقرنین احکام الٰہی کی تعمیر میں مصر سےروانہ ہوگئےاورسورج کےغروب اورطلوع ہونےکےمقامات پرپہنچ گئےاورپھروہ دوپہاڑوں کےدرمیان پہنچےجہاں کےلوگوں نے ان سےاپنی حفاظت کےلئےدفاعی دیواربنانےکی درخواست کی تاکہ وہ یاجوج ماجوج سےمحفوظ رہ سکیں ۔ کلام مجید میں ذوالقرنین کا واقع اس دفاعی فصیل یا دیوارکی تعمیرپرختم ہوگیاہے۔ اس کےبعد جو بھی ہواوہ اللہ تعالٰی کااورچینی تاریخ کابڑارازبن گیا۔ 
         جناب حمدی بن حمزہ نے کافی تحقیق کے بعد یہ معلوم کرلیاکہ یاجوج،ماجوج  چینی زبان میں چھ کاایک جملہ  ہےجس کےمعنی ھیں،"براعظم ایشیا کی رکاوٹ اور گھوڑے والے براعظم کی رکاوٹ"۔ یہ نہ صرف چینی زبان کے الفاظ ہیں بلکہ یاجوج کو چینی میں 'یاجورین' اور ماجوج کو 'ماجورین' لکھا جاتا ہے۔ ان حقائق کی روشنی میں مصنف نے چین کا تفصیلی دورہ کیا کیونکہ ان کو پورا یقین تھا کہ ذوالقرنین مصر سے سفر کرتے کرتے چین پہنچ گئے تھےاور وہ فصیل یقیناً چین میں ہی تعمیر کی گئی تھی۔ 
         مصنف نے چین کا کئی بار دورہ کیا اور چینی تاریخ دانوں سےچین کے بارے میں،یاجوج ماجوج کے بارے میں تفصیلی معلومات حاصل کیں۔ انہوں نے نہایت معقول دلائل سے یہ ثابت کیا ہے کہ جب حضرت موسیٰ اور فرعون کے درمیان بات چیت ہورہی تھی تو فرعون کے بیٹے ذوالقرنین(اخے تائن) نے دخل اندازی کر کےفرعون اور اس کے ساتھیوں کو حضرت موسیٰ کی سچائی کا یقین دلانے کی کوشش کی تھی اور یہ کوئی با اثر شخص ہی کرسکتا تھا۔
         جیسا کہ سورہْ کہف میں اللہ تعالٰی نےفرمایا ہےکہ ذوالقرنین پہلےسورج کےڈوبنےکی جگہ پہنچے۔ مصنف نےمدلل طریقہ سے یہ ثابت کیا ہےکہ یہ جگہ مالدیپ تھی جہاں کا پانی گرم تھا۔ تاریخ دانوں نے مالدیپ کے بارے میں بتلایا ہے کہ آنے والےاوربسنے والےلوگ تقریباً 3400 سال پہلےآئے تھے اور یہ وقت ذوالقرنین کےوقت کےمطابق تھا۔ وہ وہاں تقریباً 1342 قبل مسیح پہنچےتھے۔ اس کے بعد وہ اگلے سفر پر روانہ ہوئےاور اس کو اللہ تعالٰی نےکلام مجید میں سورج طلوع ہونےکی جگہ سےمنسوب کیا ہے۔
         جناب حمدی بن حمزہ نےتحقیق کے بعد ثابت کیا ہے کہ یہ جگہ بحرالکاہل میں "جمہوریہ جزائرکری باتی"  ہے۔ مصنف نےخود 'جزائرکری باتی' جاکر تحقیق کی اور وہاں سورج کو طلوع ہوتےدیکھا- عوام اس جگہ کو سورج نکلنے کی جگہ کہتے ہیں۔ مالدیپ اور کری باتی  دونوں خط استوا پرواقع ہیں جہاں سورج نکلنے اور ڈوبنے کے اوقات میں تبدیلی نہیں ہوتی اور وہاں موسم بھی تقریباً یکساں رہتا ہے۔ 'کری باتی جزائر' بحرالکاہل میں ہزاروں میل آسٹریلیا، نیوزیلینڈ کے مشرق میں ہیں۔ یہاں نہ ہی پہاڑ ہیں اور نہ ہی اونچی نیچی وادیاں۔ اس وجہ سےسورج کےطلوع ہونے کی   پہلی شعاعیں یہاں فوراً نظرآجاتی ہیں۔ اس سے ثابت ہواکہ سورج طلوع ہونے کی پہلی جگہ 'کری باتی جزائر' ہیں جہاں ذوالقرنین گئے تھے۔ کری باتی سے ذوالقرنین واپس مغرب کی طرف روانہ  ہوئے اور چین کی سرزمین پر قدم رکھا۔
         'جناب حمدی بن حمزہ نےذوالقرنین کی چین میں آمد اور وہاں 'چینگ چاوّ شہرمیں اس حفاظتی دیوار کی نشاندہی کی ہےجو ذوالقرنین نےوہاں کےلوگوں کی درخواست پر تعمیرکی تھی تاکہ وہ شمال سےحملہ آوروں کی لوٹ مار اور قتل وغارت گری سے محفوظ رہیں۔ تاریخ دانوں کے اندازے کے مطابق یہ 1200۔ 1330 قبل مسیح تیار کی گئی تھی اور چینی تاریخ میں بتا یا  گیا ہے کہ یہ فصیل 
First Great Wallشانگ دور میں تعمیر ہوئی تھی اور اس کوچین کی بڑی دیوار 
  کے نام سےیاد کیا جاتا ہے۔ یہ فصیل سونگ شان پہاڑ کی چوٹیوں کے درمیان                    کے درمیان تھی۔  Yangtze Riverاور Yellow River   - بنائی گئی 
  اس فصیل کی لمبائی تقریباً 7 کلومیٹر تھی اور اونچائی 9 میٹر۔ بنیاد کے قریب چوڑائی 36 میٹر اور اونچائی 8 میٹر تھی۔  تقریباً دس ہزار مزدوروں نے اٹھارہ سال میں یہ دیوار تیار کی تھی۔ مصنف کی تحقیق اور چینی تاریخ دانوں کی مہیا کردہ معلومات کے مطابق ذوالقرنین اور ان کے جانشینوں نے تقریباً 800 سال اس علاقہ میں حکومت کی۔ مصدقہ تحقیق کے بعد پتہ چلا کہ چین میں ذوالقرنین کی 
وفات حفاظتی دیواربنانےکےبعد جلد ہی ہوگئی تھی ان کے بعد ان  کے ساتھیوں نے    
حکومتی دور(Chu)چو
کی بنیاد رکھی اور800 سال حکومت کی۔ 
         یہ کالم ایک اہم تاریخی واقعہ کی معلومات کا خزینہ ہے۔ مجھے امید ہے کہ اس کو پڑھنے سےان لوگوں کی معلومات میں بہت اضافہ ہوا ہوگا جنہیں تاریخی واقعات میں دلچسپی ہے اور چوںکہ اس میں بیان کردہ قصہ قرآن سے منسلک ہے اس لئے  یہ سب کے لئےتوجہ کا باعث ہوگا۔  

6 comments:

  1. very well done maryam. Brilliant.

    ReplyDelete
  2. so sorry mariam.. main ny tumhara blog sab sy pehly parha tha or abbu ko bhi sunaya tha lakin uss wqt cmnts nahi snd hoo rahay thy, bd main zehan sy nikal gay..:( sorry.. or blog itna acha hai k kehnay ki zarurat hi nahi..:)

    ReplyDelete
  3. areyyyyyyyy sorry kyun....wese thanx :)

    ReplyDelete